gulzar

 کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے

کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دکھے

خفا تھی شاخ سے شاید کہ جب ہوا گزری
زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دکھے
رواں ہیں پھر بھی رکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے
بڑے اداس لگے جب بھی آبشار دکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے
کوئی طلسمی صفت تھی جو اس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دکھے
گلزار

Leave a Comment