کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے
خفا تھی شاخ سے شاید کہ جب ہوا گزری
زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے
کوئی طلسمی صفت تھی جو اس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دکھے
گلزار