یہی دکھ تو مری پلکوں کے پر نمکین کرتا ہے
اجالا بخت کو کیونکر نہیں نورین کرتا ہے
سخاوت قوم پر میری کوئی بے دین کرتا ہے
یہ خالی پیٹ مذہب کی بڑی توہین کرتا ہے
یہ مہندی بھی فراوانی سے نہیں آتی ہے اس گھر میں
کہ بابا خون سے ہاتھوں کو جب رنگین کرتا ہے
سکوں مزدور کو ایسے میسر ہو بھی سکتا ہے
کہ وارد موت ہو جائے تو پھر تسکین کرتا ہے