سعدیہ صفدر سعدی

 سرد راہوں میں بھٹکتی ہوئی شاموں کی طرح

میں ترے ساتھ چلی آئی ہوں رستوں کی طرح
بس یہی دیکھ کے تجدید ـ محبت کر لی
رو پڑا تھا وہ مرے سامنے بچوں کی طرح

مستقل گھر میں اداسی نے پڑاو کیا ہے
خواب کمروں میں سجا رکھے ہیں کتبوں کی طرح
باغ ِ ہجراں کی بہاروں کے بھی سبحان اللہ
زخم پھولوں کی طرح پھول ہیں زخموں کی طرح
لکھ رہی ہوں ترے ماتھے پہ کوئی میر ؔ کا شعر
پڑھ رہی ہوں تری آنکھوں کو صحیفوں کی طرح
وہ مجھے چھوڑ گیا ہجر مصلے پر رات
میں ادا کرتی رہی جس کو نمازوں کی طرح
موت سے رشتہ مرا ماں کی طرح ہے سعدی
زندگی لگتی ہے مجھ کو سگی بہنوں کی طرح

Leave a Comment